Select Menu

Loyal TV

اہم خبریں

clean-5

Comments

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

» » 300 سے زیادہ کیمروں کا تجزیہ، 700 گھنٹوں سے زائد کی ریکارڈنگ دیکھی، آئی جی اسلام آباد افغان سفیر کی بیٹی کے کیس کے اہم پہلو سامنے لے آئے، بڑا کھوج لگا لیا


 اسلام آباد (این این آئی) آئی جی اسلام آباد نے کسی کی تفتیش کے حوالے سے آگاہ کیا اور کہا کہ یہ انتہائی حساس اور اہم کیس ہے، اس طرح کا واقعہ رپورٹ ہونا ہمارے لیے چیلنج تھا، یہ کیس اندھا تھا، رپورٹ کے بعد کوئی ثبوت اور دیگر چیزیں ہمارے پاس نہیں تھی۔انہوں نے کہاکہ اسلام آباد پولیس نے تمام وسائل بروئے کار لائے اور 5 ٹیمیں تشکیل دیں، کوئی ٹیکنیکل، کوئی ہیومن اینالسز پر گیا اور ایک ٹیم آپریشن پر تشکیل ہوئی اور جہاں سے معلومات ملتی تھی وہ ٹیم وہاں جاتی تھی، ڈیٹا اینالسز ہوا اور دیگر اداروں

نے ہماری بھرپور مدد کی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ کم و بیش 3 دنوں کے عمل کے دوران ہم نے 300 سے زیادہ کیمروں کا تجزیہ کیا، جس میں سیف سٹی کیمرے اور نجی کیمرے بھی شامل ہیں، اسلام آباد اور راولپنڈی کے کیمرے بھی شامل ہیں۔آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم نے 700 گھنٹوں سے زائد کی ریکارڈنگ دیکھی، اب تک 220 سے زائد افراد کا انٹرویو کیا، ایک گاڑی کے 5 مالکان نکل آئے اور ایک ایک کرکے ان کے پاس جاتے گئے اور بالآخر ڈرائیور تک پہنچ گئے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اس وقت 350 سے زائد افسر اور جوان، خواتین پولیس افسران پچھلے تین دنوں سے اس کیس پر کام کر رہے ہیں، اس کا حصول یہ ہے کہ ہم نے پورا روٹ واضح کر لیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تصدیق کرلی ہے کہ شکایت کنندہ گھر سے نکلتی ہیں تو پھر کہاں جاتی ہیں، پھر کہاں جاتی ہیں اور پھر گھر کیسے پہنچتی ہیں۔آئی جی نے کہا کہ یہ گھر سے پیدل نکلتی ہیں، پھر گالا مارکیٹ سے ٹیکسی لے کر کھڈا مارکیٹ جاتی ہیں اور تحائف لیتی ہیں، اس حوالے سے ڈرائیور کا کھوج لگا کر اس سے

پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے ان کو یہاں اٹھایا تھا۔انہوں نے کہاکہ پھر دوسری ٹیکسی میں کھڈا مارکیٹ سے راولپنڈی جاتی ہیں، یہاں اہم بات یہ ہے کہ وہ شکایت کرتی ہیں کہ دوسری ٹیکسی میں واقعہ ہوتا ہے، ٹیکسی میں چلتے ہوئے 5 منٹ ہوتے ہیں تو کوئی بندہ داخل ہوتا ہے اور ان پر تشدد کرتا ہے۔پولیس افسر نے بتایا کہ ہم نے دوسری ٹیکسی کا بھی کھوج لگایا تو اس کے بھی تین مالکان تھے اور تیسرے مالک کے پاس پہنچ کر ڈرائیور مل جاتا ہے اور وہ تصدیق کرتا ہے کہ میں نے ان کو کھڈا مارکیٹ سے اٹھایا اور راولپنڈی صدر لے کر گیا اور 600 روپے کرایہ وصول کیا جبکہ کھڈا مارکیٹ سے نکل کر ایکسپریس وے، فیض آباد اور صدر کی ساری سی سی ٹی وی فوٹیج ملی۔انہوں نے کہاکہ جہاں پر ان کو ڈراپ کیا گیا تھا وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج ہمیں نہیں ملی، پنڈی صدر کے 8 کیمروں سے اس کی تصدیق ہوئی ہم نے ڈرائیور کا نمبر بھی ٹریک کیا تو وہ بھی وہی پہنچی۔انہوں نے کہا کہ پنڈی سے دامن کوہ کے لیے ایک اور ٹیکسی لی جہاں سے ہمیں ایک کیمرے ملا جو دامن کوہ میں تھا وہاں سے ہمیں اشارے ملے تو ہم نے ڈرائیور ڈھونڈ نکالا، جس نے کہا کہ میں نے ان سے 700 کرایہ لیا اور اسلام آباد ڈراپ کیا۔تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پھر چوتھی ٹیکسی بھی شامل ہے، وہ یہ ہے کہ دامن کوہ سے ان کو اٹھاتا ہے اور ایف نائن پارک ڈراپ کرتا ہے لیکن اسے پہلے ایف 6 جاتی ہیں اور فون نہیں ملنے پر ایف نائن پارک جاتی ہیں، اس بندے کا انٹرویو

بھی ہوگیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ایف نائن پارک میں کسی سے موبائل لے کر وہ سفارت خانے فون کرتی ہیں اور وہاں سے سفارت خانے کا عملہ آکر ان کو گھر لے جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری تفتیش تقریباً پوری ہوگئی ہے، درمیان میں ایک تاثر آگیا تھا وہ ہمارے ثبوت کے مطابق ثابت نہیں ہوتا اور ہم نے وزارت خارجہ سے درخواست کی کہ ہمیں مزید تعاون کی ضرورت ہے تو انہوں نے نوٹ بنا کر بھیج دیا۔مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہاکہ پاکستان ہائبرڈ وار کا نشانہ بنا ہوا ہے،پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کا جال بنا جارہا ہے،ای یو ڈس انفو لیب بھی اسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ مئی کے آخر سے لے کر اب تک پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈہ جاری ہے،مختلف جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف

غلط تاثر پھیلایا جارہا ہے،پاکستان ہندوستاں اور افغانستان سے یہ جعلی اکاؤنٹس چکائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو افغانستان میں قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے،ہم افغانستان میں قربانی کا بکرا ہرگز نہیں بنیں گے،کسی اور کی غلطیاں ہم اپنے سر نہیں لیں گے

پاک اردو ٹیوب Loyal TV

ہ۔ یہ ایک فرضی تحریر ہے یہاں پر آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں۔
«
Next
Newer Post
»
Previous
Older Post

No comments:

اپنا تبصرہ تحریر کریں توجہ فرمائیں :- غیر متعلقہ,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, ادارہ ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز ادارہ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں